وہ بڑا اچھا وقت تھا جب لوگ بھی سادہ اور ان کی زندگی بھی سادگی اور کفایت شعاری والی تھی۔ نمود و نمائش نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ گھر کے تمام خرچے بھی پورے ہوتے تھے۔ تقریبات اس دور میں بھی ہوتی تھیں،بلکہ گھروں میں دعوتی کھانے پکائے جاتے تھے۔ خواتین گھر میں نت نئے لباس خود تیار کرتی تھیں۔ زندگی نہایت خوبصورت طریقے سے گزر رہی تھی لیکن اچانک کیا ہوا زمانے نے اپنا رنگ روپ ہی بدل ڈالا۔ سادگی کی جگہ خودنمائی نے جگہ لے گی۔ ہر طرف پیسہ ہی پیسہ چھا گیا۔ اب وہی معزز مانا جاتا ہے جو زیادہ روپیہ خرچ کرے۔ اس لیے تو آج فضول خرچی ہماری زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ آج ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس نفسیاتی دبائو میں زندگی گزار رہا ہے کہ اسے دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ اس لیے تو ہم جھوٹے نمائشی رویے اپناتے جارہے ہیں اور پیسے کا بے جا ضیاع ہمارا (Status Symbol) بن چکا ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل امر ہے کہ فضول خرچ ہونے میں مرد آگے ہے یا عورت؟ کہا تو یہ جاتا ہے کہ عورت ہی زیادہ فضول خرچ ہے کیونکہ خودنمائی کی عادت عورت میں زیادہ ہوتی ہے۔ خاندان میں یا احباب میں کوئی تقریب یا شادی آجائے تو گھر کا سارا بجٹ درہم برہم ہو جاتا ہے اور خاتون خانہ کے مطالبات زور پکڑنے شروع ہو جاتے ہیں اور بےچارہ شوہر فضول خرچیوں پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اپنی بیوی کے ان اخراجات کا ذکر بڑھا چڑھا کر اپنے حلقہ احباب میں سناتا ہے کہ کس طرح اس کی محنت سے کمائی ہوئی رقم اس کی خاتون خانہ اپنے رشتہ داروں کی شادی پر لٹا رہی ہے اور یہ کہ وہ کس طرح فضول خرچی کر رہی ہے۔ اس لیے عورت کو سب سے بڑا فضول خرچ ہونے کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ اس میں مکمل سچائی نہیں پائی جاتی کیونکہ مرد بھی بہت بڑے فضول خرچ واقع ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں چند خواتین سے رائے لی گئی کہ اس میں کتنی صداقت ہے۔
محترمہ روبی، بینک ملازم
روبی جو کہ ایک ملٹی نیشنل بینک میں ملازمت کرتی ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا وہ زیادہ فضول خرچ ہے یا نہیں؟ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ یہ غلط ہے کہ عورت فضول خرچی کرتی ہے بلکہ یہ تو اس کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق چونکہ میں ملازمت کرتی ہوں اس لیے مجھے نئے ملبوسات کی ہر مہینے ضرورت ہوتی ہے اور اپنی ذات پر خرچ کوئی فضول خرچی نہیں۔
مسز شکیل، ہائوس وائف
انہوں نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ مکمل گھریلو خاتون ہیں اور ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق ہے۔ شوہر ایک کمپنی میں ملازم ہے۔ مجھے ہر مہینے محدود آمدنی میں گھر کا بجٹ تیار کرنا ہوتا ہے۔ جس میں گھر کی ہر چیز سے لے کر بچوں کی فیسوں تک کے اخراجات آتے ہیں۔ میں بہت محتاط طریقے سے خرچ کرتی ہوں۔ اوپر سے مہنگائی بھی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ان کے مطابق ایک عورت بالکل فضول خرچ نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ محدود ذرائع سے گھر کا خرچہ چلاتی ہے۔ لیکن عورت کو فضول خرچ کہنے والے اس کی محنت کو فراموش کر دیتے ہیں۔
رخسانہ، لیکچرار پاک سٹڈیز
انہوں نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عورت کو فضول خرچ کہنے والے مرد خود اپنی شاہ خرچیوں میں عورتوں سے آگے ہیں اور انہوں نے کہا کہ مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ میرے خاوند سب سے بڑے فضول خرچ ہیں۔ وہ فائیو سٹار ہوٹلز میں اپنے دوستوں کیلئے ڈنر کا اہتمام کرتے ہیں۔ جو بے جا اسراف کا سبب بنتا ہے۔ وہ خود نمود و نمائش میں پڑے ہوئے ہیں۔ حالانکہ فضول خرچی کا مورد الزم عورت کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ عورت فضول خرچ ہے یا مرد اس میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ہر عورت زیادہ خرچ کرتی ہے لیکن ہر مرد اپنے اخراجات میں عورتوں سے دو قدم آگے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی روایات بھی بدلتی جارہی ہے۔ آج نمود و نمائش، پیسے کا بے جا ضیاع شاید فیشن بنتا جارہا ہے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 719
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں